آرمی چیف نے ا مریکہ اور افغانستان کے بعض حلقوں کی پاکستان پر الزام تراشی کو یکسر مسترد کر دیا

بے بنیاد الزامات اور ڈی مور کے مطالبات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور کردار کی نفی ہے یہ ہرگز اتفاق نہیں کہ ایسی الزام تراشیاں اس وقت کی جارہی ہیں جب امریکہ پاکستان کے حوالے سے ا پنی پالیسی کا جائزہ لے رہا ہے،جنر ل قمر جاوید باجوہ کی امریکہ کے افغانستان میں ریزولوٹ سپورٹ مشن میں تعینات کمانڈر جنرل جان نکلسن سے بات چیت پاکستان کی فوجی امداد روکے جانے پر بھی افسوس کا اظہار

پیر 24 جولائی 2017 23:16

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل جولائی ء)پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ا مریکہ اور افغانستان کے بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بے بنیاد الزامات اور ڈی مور کے مطالبات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور کردار کی نفی ہے یہ ہرگز اتفاق نہیں کہ ایسی الزام تراشیاں اس وقت کی جارہی ہیں جب امریکہ پاکستان کے حوالے سے ا پنی پالیسی کا جائزہ لے رہا ہے۔

انہوں نے پاکستان کی فوجی امداد روکے جانے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔

(جاری ہے)

ترجمان پاک فوج کے مطابق وہ امریکہ کے افغانستان میں ریزولوٹ سپورٹ مشن میں تعینات کمانڈر جنرل جان نکلسن سے بات چیت کر رہے تھے جنھوںنے پیر کو جی ایچ کیو کا دورہ کیا اور آرمی چیف سے ملاقات کی ملاقات میں خطے کی سکیورٹی کی صورت حال اور بارڈر مینجمنٹ کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا آرمی چیف نے افغانستان اور امریکہ میں بیٹھے چند عناصر کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی پر تشویش کاا ظہار کیا اور واضح کر دیا کہ اس قسم کی الزام تراشیاں پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جاری کوششوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور یہ ہماری قربانیوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے ارمی چیف نے واضح کیا کہ یہ ہرگز اتفاق نہین کہ ایسی الزام تراشیاں اس وقت کی جارہی ہیں جب امریکی انتظامیہ پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسی کا جائزہ لے رہا ہے جنرل باجوہ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اشتعال کے باوجود پاکستان مثبت انداز میں دہشتگردی کے خلاف کوششیں جاری رکھے گا، جنرل نکلسن نے کہا کہ پاک فوج ایک پیشہ وارانہ فورس ہے، جس سے تعاون جاری رہے گا دونوں اعلی فوجی افسران نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان خطے میں امن وسلامتی کیلئے کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا ملاقات مِیں پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل بھی موجود تھے دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ ارمی چیف نے واضح کیا کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے اور بارڈر مینجمنٹ کا مقصد دہشت گردوں کی امد و رفت روکنا ہے مگر افغان حکومت تعاون کرنے کی بجائے الزام تراشی کر رہی ہے اس سے دہشت گردی کے خاتمے کے مقاصد حاصل نہیں ہونگے انہوں نے ایک بار پھر افغانستان میں بیٹھے ہوئے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے پاک افغان سرحد کے قریب آپریشن خیبر فور شروع کیا ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود اس آپریشن میں ہمیں کامیابیاں مل رہی ہیں انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کر رہا ہے حقانی گروپ ہو یا کوئی اور ہم نے سب کے خلاف کاروائی کی ہے اور پاکستان میں دہشت گردوں کے کوئی محفوظ ٹھکانے اب باقی نہیں رہے اس حوالے سے امریکی وزیر دفاع کے بیان پر بھی انہوں نے افسوس اور تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کی فوجی امداد کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی سے مشروط کر نا کسی طور مناسب نہیں کیونکہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے امریکی رپورٹ میں کوئی صداقت نہیں ہے ذرائع کے مطابق انہوں نے ڈو مور کے مطالبات کو بھی رد کر دیا اور کہا کہ پاکستان کا کردار اور قربانیاں ساری دنیا کے سامنے ہیں ۔