اعداد و شمار اور حلقہ بندی کی خرابی صرف کراچی میں نہیں بلکہ پورے سندھ میں یہ حرکت کی گئی ہے ، وزیراعلیٰ سندھ

تجویز بھی دی کہ مردم شماری بلاکس کا ڈیٹا بھی پبلک کرتے جائیں۔انہوں نے مجھے یہ پیغام دیا کہ یہ خفیہ ڈیٹا ہے،میرا ہی ڈیٹا مجھ سے سیکریٹ رکھا جارہا ہے کراچی کے انفرا اسٹرکچر کو ہم نے ترقی دی اور سندھ حکومت نے 10 بلین روپی کے منصوبے شروع کیے ہوئے ہیں اور اب تک 7.5 بلین روپے خرچ کرچکے ہیں،میئر کراچی کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں اور میئر کراچی کو بھی لگن اور مخلصی کے ساتھ کام کرنا ہوگا، تقریب سے خطاب

جمعرات 21 ستمبر 2017 23:29

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ ستمبر ء) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ اعداد و شمار اور حلقہ بندی کی خرابی صرف کراچی میں نہیں بلکہ پورے سندھ میں یہ حرکت کی گئی ہے۔ سید مراد علی شاہ نے مردم شماری کے حوالے سے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر مردم شماری شروع کی گئی اور میں نے مردم شماری کے معاملے پر اجلاس بھی منعقد کیاتھا اور اس وقت اسحاق ڈار اعداد و شمار کی تقسیم کے عمل کو دیکھتے تھے اور میں نے اسحاق ڈار کو یہ تجویز دی تھی کہ جو فارم کسی خاندان کو ریکارڈ کرنے کے لیے پر کیے جاتے ہیں اس کی کاپی متعلقہ خاندان کو ارسال کی جائے اور ساتھ میں ان کو یہ تجویز بھی دی کہ مردم شماری بلاکس کا ڈیٹا بھی پبلک کرتے جائیں۔

انہوں نے مجھے یہ پیغام دیا کہ یہ خفیہ ڈیٹا ہے،جس پر وزیر اعلی سندھ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا ہی ڈیٹا مجھ سے ہی سیکریٹ رکھا جارہا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کانسل کے اجلاس کے بعد میرے متعلق یہ کہا گیا کہ وزیراعلی سندھ نے ڈیٹا منظور کرلیا ہے جبکہ یہ سی سی آئی کے اجلاس کا ایجنڈا تھا۔انہوں نے کہا کہ وفاق کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ہر شہری کو مطمئن کرے۔

انہوں نے کہا کہ میرا تعلقہ سیہون ہے، لیکن اس کو تین تعلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جب اپیل کی تو اسے دو تعلقوں پر پھیلادیا گیا۔وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ مردم شماری کے باعث انتخابی حلقہ بندیوں میں تاخیر نہیں ہونے دیں گے۔وزیر اعلی سندھ نے یہ باتیں صوبائی وزرا کے ہمراہ کراچی چیمبر آف کامرس کے دورے کے موقع پر اپنے خطاب میں کہیں۔ اس موقع پر صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو، وزیر صنعت منظور وسان ، وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن مکیش کمار چاولہ، وزیر منصوبہ بندی و ترقی میر ہزار خان بجارانی ، ایم ڈی واٹر بورڈ کراچی بھی موجود تھے ۔

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں چیمبر آف کامرس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہاں آنے کا وعدہ کیا تھاسومیں آگیا ہوں۔وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی کے انفرا اسٹرکچر کو ہم نے ترقی دی اور سندھ حکومت نے 10 بلین روپیکے منصوبے شروع کیے ہوئے ہیں اور اب تک 7.5 بلین روپے خرچ کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کے ایم سی کو 8 بلین روپیکی رقم ترقیاتی کاموں کے لیے دے رکھی ہے مگر 1 کلومیٹر پر مشتمل کالا بورڈ۔

ملیر روڈ کا کام بھی کے ایم سی نہیں کرسکی ہے ۔ انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نیک نیتی سے کام کر رہا ہوں، باقی اللہ پاک پر چھوڑتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں نے میئر کراچی سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملیر والا روڈ بنائیں، اس کے لیے میں انہیں مزید فنڈز دوں گا۔انہوں نے کہا کہ یہ میرا شہر ہے، اور یہ پاکستان کا معاشی انجن ہے، اس کو ہر صورت ترقی دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں میئر کراچی کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں اور میئر کراچی کو بھی لگن اور مخلصی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں کے دوران میں حج پر تھا اور میئر کراچی نے کام سے ہاتھ اٹھا لیا، تومجھے صوبائی وزیروں کو متحرک کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ تھڈو نالے کے ٹوٹنے کی باتیں ہوئیں، سندھ حکومت پر الزام لگایا گیا کہ ہم نے ناقص نکاسی آب کی تعمیرات کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس والے نالے پر تعمیر کررہے ہیں،وہاں جاکر آپ دیکھیں کس نے نیچرل واٹر ویوز پر تعمیرات کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے 6.7 بلین روپئے ہماری کٹوتی کی اورایف بی آر نے اس لیے رقوم کاٹیں کہ انہوں نے اخبار میں پڑھا کہ سندھ ایکسائز نے 14 لاکھ گاڑیاں رجسٹر کی ہیں،جبکہ ہم نے ایف بی آر کو بتایا کہ 14 لاکھ گاڑیاں رجسٹر نہیں ہوئیں ہیں جس پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے یہ کہا تھا کہ سندھ حکومت کو اخبار میں تردید کرنی چاہیے تھی اب یہ تو حال ہے ایف بی آر کا۔

وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ اگر میں یہ رونا روتا رہوں تو کام نہیں کرسکتا، مجھے کام کرنا ہے اور میں کام نہیں چھوڑوں گا۔انہوں نے کراچی میں آئی پی سی سی کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ گیس پر پہلا حق اس صوبے کا ہے جہاں گیس پیدا ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ لا ڈویژن والوں کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق سب برابر ہیں، اس لیے گیس سب کو ملے گی، مگر میں گیس پر صوبوں کا حق منوانے میں کامیاب ہوا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں 7 متروکہ گیس فیلڈ ہیں،اور اگر سندھ کو گیس دی جائے تو سندھ اپنا پاور پلانٹ لگاسکتا ہے مگر وفاقی حکومت اس حوالے سے ٹال مٹول کرتی رہی اور یہ گیس فیلڈز نہیں دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس بات کاوعدہ کیا تھا کہ وہ سندھ کو پاور پلانٹ کے لیے 20 ایم ایم سی ایف گیس د ے گا۔وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ جب ہم نے پاور پلانٹ نوری آباد میں لگانا شروع کیا تو بعد میں گیس دینے پر ڈرامے شروع ہوگئے اور حیسکو نے نوری آباد پاور پلانٹ سے بجلی لینے سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا کہ 7.83 ٹیرف پر کراچی الیکٹرک بجلی لینے پر راضی ہوگئی، مگراب ٹرانسمیشن لائن کا مسئلہ ہوگیا ہے، این ٹی ڈی سی نے انکار کردیا تو ہم نے ایس ٹی ڈی سی بناکر بجلی کے الیکٹرک کو دینا شروع کردی۔انہوں نے صنعتی اداروں کو تنبیہ دیتے ہوئے کہا کہ صنعتی اداریگندا پانی صاف نہیں کرتے ان کو اپنا یہ کام کرنا چاہیے۔انہوں نے بلدیاتی اداروں کے متعلق کہا کہ بلدیاتی اداروں کو 46 بلین روپئے سے بڑھاکران کے فنڈز 60 بلین روپئے کردیئے گئے تھے اور اب تو 68 بلین روپئے دے رہے ہیں، اب بلدیاتی ادارے اپنا کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ میں پرسوں اسلام آباد سے واپسی پر برنس وارڈ اور پھر جہانگیر پارک دیکھنے گیا توصدر میں کچرے کے ڈبے دکانوں کے سامنے پڑے تھے لیکن دکاندار پھر بھی کچرا روڈ پر پھینک رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ پراپرٹی ٹیکس ڈی ایم سیز کو جاتا ہے ۔اس موقع پر جام خان شورو نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کے ایم سی کو ہر ماہ 800 ملین روپے دیئے جاتے ہیں جبکہ میئر کراچی نے کے ایم سی کے 3 ہزار ملازمین بڑھا کر 12 ہزار کردیئے ہیں اورواٹر بورڈ میں 4 ہزار ملازمین کو بڑھا کر 15 ہزار کردیا گیا ہے لیکن آپ(میئر کراچی) ان ملازمین کے خلاف بات نہیں کرتے اور سندھ حکومت پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں 2 سو ہائیڈرنٹس چلتے تھے اب صرف 7 ہائیڈرنٹس چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میئر کراچی جہاں جہاں بھی جاتے ہائیڈرنٹس بند کروا دیتے ہیں ۔جام خان شورو نے کہا کہ ہم نے جب بھی غیر قانونی پانی کی لائنوں پر کارروائی کی، تو ہمارے سامنے آپ( صنعتکار) آئے۔انہوں نے کہا کہ ہماری بچھائی ہوئی پانی کی لائنوں کو سبوتاژ کرکے پانی چوری ہو رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں کچرے پر سیاست ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کے ذریعے ڈی ایم سی ساتھ اور ایسٹ سیگاربیج لفٹنگ آئوٹ سورس کروا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم شہر قائد کی صفائی پر کام کررہے ہیں اور بہت جلد یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ لینڈ فل سائٹ جو کچرا اٹھا رہا ہے وہ لینڈ فل سائٹ نہیں جاتا، جس کے لیے ہم نے لاہور کی ایک کمپنی کو یہ ٹھیکہ دیا ہوا ہے اوریہ کام بھی بہت جلد بہتر ہو جائے گا۔

انہوں نے وزیر اعلی سندھ کے اعزاز میں یہ بات کہی کہ وزیراعلی سندھ بہت محنتی ہیں، اگر کوئی وزیر اپنے کام سے روگردانی کرنا چاہے تب بھی وہ نہیں کرسکتا ۔صوبائی وزیر اطلاعات سید ناصر شاہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانسپورٹ پر ریسرچ ہوئی ہیاور ماس ٹرانزٹ اتھارٹی ہم نے 2016 میں بنائی ہے۔انہوں نے کہا کہ گرین لائن وفاقی حکومت کا منصوبہ ہے جبکہ اورینج لائن سندھ حکومت کا منصوبہ ہے اور اس وقت اس پر کام جاری ہے۔

وزیر اطلاعات کا یہ بھی کہنا تھا کہ یلو، بلیو اور ریڈ لائن پر کام جلد شروع ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کے سی آر پر کام شروع ہے، یعنی تجاوزات ہٹانے کا کام کچھ اضلاع میں مکمل ہوچکا ہے۔صوبائی وزیر صنعت منظور وسان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ صنعت کے دو اہم ادارے ہیں () سائٹ لمیٹڈ () سمال انڈسٹریز، یہ دونوں ادارے خودمختیار ہونے کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی کماتے تھے اوران کے اکائونٹ میں 1 بلین روپیتھے لیکن اب 160 ملین روپے پڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان اداروں میں بے تحاشہ ملازمتیں دی گئیں اور3 سو ملازمین کی جگہ 7 سو ملازمین بھرتی کئے گئے جس کی وجہ سے یہ ادارے مالی طور بیٹھ گئے۔انہوں نے کہا کہ ہماری کارکردگی بہتر ہے، ہم نے 160 ملین روپئے بڑھاکر 360 ملین روپئے کردیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کو 7 بلین روپے کی ایکسائز ڈیوٹی ملتی ہے ۔