پاک فوج سے اختلاف رائے رہا، قومی ادارہ ہے نرم گرم حالات چلتے رہتے ہیں، مولانا فضل الرحمن

فوج کو سیاست میں فریق نہیں سمجھتا۔ عدلیہ کے فیصلوں کی مخالفت کرتا ہوں ایسے فیصلوں سے ملک پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے، سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) پاکستانی سیاسی کلچر بے حیائی میں ڈوب گیا ہے،۔ افغانستان جنگ میں ہم سے غلطیاں ہوئیں ہیں، افغانیوں کے لئے پاکستانی سر زمین آزادانہ کھول دی جو ہمارے لئے پریشانی کا باعث بنی،مقبوضہ میں بھارتی افواج کے مظالم جاری ہے کشمیری قوم آزادی کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں، انٹرویو

بدھ 22 نومبر 2017 22:32

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات نومبر ء)جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پاک فوج سے اختلاف رائے رہا، قومی ادارہ ہے نرم گرم حالات چلتے رہتے ہیں۔ فوج کو سیاست میں فریق نہیں سمجھتا۔ عدلیہ کے فیصلوں کی مخالفت کرتا ہوں ایسے فیصلوں سے ملک پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

پاکستانی سیاسی کلچر بے حیائی میں ڈوب گیا ہے۔ گزشتہ روز نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ملک میں امن کے بغیر ملکی معیشت کسی صورت میں بہتر نہیں ہو سکتی۔ بہت سے ممالک جو پاکستان سے پیچھے تھے آج ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ افغانستان جنگ میں ہم سے غلطیاں ہوئیں ہیں۔

(جاری ہے)

افغانیوں کے لئے پاکستانی سر زمین آزادانہ کھول دی جو ہمارے لئے پریشانی کا باعث بنی۔

پاک افغان بہترین تعلق دونوں ممالک کی عوام کی ترقی کا ذریعہ ہے۔ دنیا ترقی کے لئے سمٹ رہی ہے۔ اقتصادی نقشہ تبدیل ہو رہا ہے۔ چین دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی ترقی بن رہا ہے۔ ہمارے ادارے ملک میں امن و امان کے خیال کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام اپنی دفاعی صلاحیت پر بھرپور اعتماد کرتی ہے۔ پاک افواج کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔

مارشل لاء کے نفاذ پر اپنی فوج سے ہم نے اختلاف رائے کیا۔ پاک فوج ہمارا ادارہ ہے۔ نرم گرم حالات چلتے رہتے ہیں۔ پاک فوج کو سیاست میں اپنا فریق نہیں سمجھنا چاہیئے۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف نے ملک میں قیام امن کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ جنرل قمر باجوہ نے بھی قیام امن کے لئے بہترین کام کر دیئے ہیں۔ پاک فوج ہمارا سیاسی اور مذاکرات کے راستوں کی حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے عدلیہ کے کچھ فیصلوں پر تحفظات ہیں۔ اداروں کی جانب سے ہر وزیراعظم کو وجوہات تلاش کر کے نکالنا درست نہیں ہے۔ عدلیہ کی جانب سے نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کو نا اہل کرنے پر سیاسی حلقوں میں تحفظات ہیں۔ پہلے بھی اس قسم کے فیصلوں کے حق نہیں تھا اور آجب ھی مخالفت کرتا ہوں ۔ اس قسم کے فیصلوں سے ملک کے اوپر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوئے۔

میں نے پارلیمنٹ میں 1988ء میں پہلی بار قدم رکھا۔ کتنی حکومتیں میرے سامنے بنیں اور کتنی ہی حکومتیں گئیں۔ میں اس بات کا بالکل قائل نہیں کہ کسی کے ساتھ شدت سے لڑا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ تمام پارٹیوں کو ایکد وسرے کے قریب رکھوں۔ مسلم لیگ ن اور پیپل زپارٹی چار سال افہام تفہیم سے چلتی رہی ہیں۔ مگر اب پانچ سال الیکشن کا ہے دونوں جماعتوں نے الیکشن میں جانا ہے اور الیکشن کی تیاری میں مصروف عمل ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہمارا پورا سیاسی کلچر بے حیائی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس ملک میں ہم شریعت کے حوالے سے بات کریں تو ہمیں تنگ نظر کہا جاتاہے۔ مقبوضہ میں بھارتی افواج کے مظالم جاری ہے کشمیری قوم آزادی کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ کشمیری قوم کا خون بہہ رہا ہے۔ کشمیری قربانی والی قوم ہے ۔ فحش پروگرام پسند نہیں کرتے۔۔