سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سماعت- جے آئی ٹی کی فائنڈنگز سارا پاکستان جان چکا ہے لیکن ہم اس کے پابند نہیں ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن

جے آئی ٹی ٹرائل نہیں کر رہی تھی، الزامات اس نوعیت کے تھے کہ تحقیقات کروانا پڑیں اور گواہان کے بیانات آرٹیکل 161 کے تحت ریکارڈ کیے گئے۔جسٹس اعجازافضل فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی‘پاناماکیس کے تمام فریقین کی نظریں جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم10پر سیکورٹی کے سخت انتظامات‘شریف خاندان کی قانونی ٹیم نے عدالت سے رپورٹ مسترد کرنے کی درخواست جمع کروائی ہے-اسحاق ڈارکی جانب سے بھی سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی پر اعتراضات پر مبنی متفرق درخواست جمع

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 17 جولائی 2017 10:05

سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سماعت- جے آئی ٹی کی فائنڈنگز سارا ..
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 جولائی۔2017ء) پاناماکیس بنچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگز سارا پاکستان جان چکا ہے لیکن ہم اس کے پابند نہیں ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا خصوصی بینچ پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے۔

سماعت سے قبل شریف خاندان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کرادیئے۔ شریف خاندان نے اپنے اعتراضات میں موقف اختیار کیا ہے کہ جے آئی ٹی کوعدالت نے 13 سوالات کی تحقیقات کاحکم دیا تھا لیکن جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا، جے آئی ٹی جانبدار تھی اور اس نے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔

(جاری ہے)

اس لیے عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ ہماری درخواست منظور کرتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کیا جائے۔

عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جے آئی ٹی رپورٹ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاناما کیس کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دیا جب کہ جسٹس گلزار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ سے اتفاق کیا اور 3 ججز نے مزید تحقیقات کی ہدایت دی۔ جس کے بعد عمل درآمد بینچ اور جے آئی ٹی بنی، جے آئی ٹی ہر 15 روز بعد اپنی پیش رفت رپورٹ عمل درآمد بینچ کے سامنے جمع کراتی رہی۔

10 جولائی کو جے آئی ٹی نے اپنے حتمی رپورٹ جمع کرائی۔ تحقیقات کا معاملہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے، اب جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے متحدہ عرب امارات سے قانونی معاونت بھی حاصل کی، گلف اسٹیل مل سے متعلق شریف خاندان اپنا موقف ثابت نہ کرسکا، گلف اسٹیل مل 33 ملین درہم میں فروخت نہیں ہوئی، جے آئی ٹی نے طارق شفیع کے بیان حلفی کوغلط اور 14 اپریل 1980 کے معاہدے کو خود ساختہ قرار دیا، اپنی تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی نے حسین نواز اور طارق شفیع کے بیانات میں تضاد بھی نوٹ کیا۔

جے آئی ٹی نے فہد بن جاسم کو 12 ملین درہم ادا کرنے کو افسانہ قرار دیا۔ قطری خط وزیراعظم کی تقاریر میں شامل نہیں تھا، جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کو طلبی کے لیے چار خط لکھے، جے آئی ٹی نے کہا کہ قطری شہزادہ پاکستانی قانونی حدود ماننے کو تیار نہیں، اس کے علاوہ قطری شہزادے نے عدالتی دائرہ اختیار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔عمران خان کے وکیل نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی ایجنسی نے موزیک فونسیکا کے ساتھ خط وکتابت کی۔

جے آئی ٹی نے اس خط و کتابت تصدیق کی۔ لندن فلیٹ شروع سے شریف خاندان کے پاس ہیں، تحقیقات کے دوران مریم نواز نے اصل سرٹیفکیٹ پیش نہیں کیے، ٹرسٹی ہونے کے لیے ضروری تھا کہ مریم نواز کے پاس بیریئر سرٹیفکیٹ ہوتے۔ بیریئر سرٹیفکیٹ کی منسوخی کے بعد کسی قسم کی ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں، فرانزک ماہرین نے ٹرسٹ ڈیڈ کے فونٹ پر بھی اعتراض کیا۔حدیبیہ پیپر کیس سے متعلق نعیم بخاری نے کہا کہ حدیبیہ کیس کے فیصلے میں قطری خاندان کا کہیں تذکرہ نہیں، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اس میں قطری خاندان کا ذکر ہونا ضروری نہیں تھا، حدیبیہ پیپر ملز کی سیٹلمنٹ کی اصل دستاویزات سربمہر ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ شہباز شریف بطور گواہ جے آئی ٹی میں پیش ہوئے، انہوں نے جے آئی ٹی میں ایسے بیان دیا جیسے پولیس افسر کے سامنے دیتے ہیں۔

ان کا بیان تضاد کے لیے استعمال ہوسکتا ہے، جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیانات کو ضابطہ فوجداری کے تحت دیکھا جائے گا، قانونی پیرامیٹرز کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی کے مطابق نوازشریف نے سعودی عرب میں واقع عزیزیہ اسٹیل ملز لگانے کے لیے کوئی سرمایہ موجود نہیں تھا، عزیزیہ اسٹیل مل کے حسین نواز اکیلے نہیں بلکہ میاں شریف اور رابعہ شہباز بھی حصہ دار تھے۔

اس کی فروخت کی دستاویزات پیش نہیں کیں لیکن جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ عزیزیہ مل 63 نہیں 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے بتایا ہے کہ ایف زیڈ ای نامی کمپنی نوازشریف کی ہے۔ حسین نواز کے مطابق ایف زیڈ ای کمپنی 2014 میں ختم کردی گئی، نواز شریف ایف زیڈ ای کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین تھے۔ عدالت نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا ایف زیڈ ای کی دستاویزات جے آئی ٹی کو قانونی معاونت کے تحت ملیں یا ذرائع سے جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ کمپنی کی دستاویزات قانونی معاونت کے تحت آئیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ تمام دستاویزات تصدیق شدہ نہیں ہیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ دستاویزات درست ہیں صرف دستخط شدہ نہیں۔

کمپنی نے نوازشریف کا متحدہ عرب امارات کا اقامہ بھی فراہم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے دبئی اور برطانوی حکام کو 7 ،7 خطوط لکھے،اس کے علاوہ سعودی عرب کو بھی ایک خط لکھا لیکن اس کا جواب نہیں آیا۔ یو اے ای حکومت کو لکھے گئے خطوط رپورٹ کی جلد نمبر 10 میں ہوں گے جو ظاہر نہیں کی گئی، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ضرورت محسوس ہوئی تو والیم 10 کو بھی کھول کر دیکھیں گے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ شریف خاندان کے پاس آمدن سے زائد اثاثے ہیں،نواز شریف کے اثاثے بھی ان کی آمدن سے زائد ثابت ہوئے، اس کا ذکر جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل ہے، جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ آمدن سے زائد اثاثے ہونے کے کیا نتائج ہوں گے۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا ہے کہ ہم نے عدالت سے نواز شریف کی نااہلی کا ڈیکلریشن مانگا ہے، نواز شریف کے خلا ف نیب کا مقدمہ بھی بنتا ہے۔

نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل میں کہا کہ توفیق آصف نے کہا کہ میری درخواست نواز شریف کی اسمبلی تقریر کے گرد گھومتی ہے،نواز شریف نے اسمبلی تقریر اور قوم سے خطاب میں سچ نہیں بولا، جے آئی ٹی کے مطابق نواز شریف نے تعاون نہیں کیا، انہوں نے نے قطری خطوط پڑھے بغیر درست قرار دیئے، نواز شریف نے کہا کہ قطری سرمایہ کاری کاعلم ہے مگر کچھ یاد نہیں، نواز شریف نے اپنے خالو کو پہچاننے سے انکار کیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگز سارا پاکستان جان چکا ہے لیکن ہم جے آئی ٹی کی فائنڈنگز کے پابند نہیں، آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہم جے آئی ٹی فائنڈنگز پر عمل کیوں کریں۔ جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ ہم جے آئی ٹی کی سفارشات پر کس حد تک عمل کر سکتے ہیں، بتائیں ہم اپنے کون سے اختیارات کا کس حد تک استعمال کرسکتے ہیں۔ جس پر توفیق آصف نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیر اعظم کی نااہلی کے لیے کافی مواد ہے، نعیم بخاری جے آئی ٹی رپورٹ کی سمری سے عدالت کوآگاہ کرچکے۔

ہم جے آئی ٹی رپورٹ کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور اسے درست تسلیم کرتے ہیں۔ بادی النظر میں وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر بادی النظر کہہ دیا تو پھر کیس ہی ختم ہوگیا۔جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کے تیسرے مدعی شیخ رشید نے اپنے دلائل دیئے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ثابت کیا کہ ملک میں ایماندار لوگوں کی کمی نہیں، جے آئی ٹی کی سپر6اور ججز کو قوم کی خدمت کا اجر ملے گا، انشاءاللہ انصاف جیتے گا اور پاکستان کامیاب ہو گا، ہر کیس کے پیچھے ایک چہرہ ہوتا ہے اور اس معاملے کے پیچھے نواز شریف کا چہرہ ہے، نواز شریف نے لندن فلیٹس کے باہر کھڑے ہو کر پریس کانفرنس کی، مریم نواز لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک ثابت ہوئیں، جے آئی ٹی رپورٹ میں تو مزید آف شور کمپنیاں بھی نکل آئیں۔

جس عمر میں ہمارا شناختی کارڈ نہیں بنتا ان کے بچے کروڑوں کما لیتے ہیں، قوم کی ناک کٹ گئی کہ وزیر اعظم دوسرے ملک میں نوکری کرتا ہے، نواز شریف کا تنخواہ لینا یا نہ لینا معنی نہیں رکھتا،اب معاملہ ملکی عزت کا ہے، جو ڈھائی گھنٹے بعد اپنے خالو کو پہچانے اس پر کیا بھروسہ کیا جا سکتاہے، پی ٹی وی کا خاکروب 18 ہزار اور وزیر اعظم 5 ہزار روپے ٹیکس دیتا تھا اور تو اور 1500 ریال لینے والے کیپٹن صفدر کے بھی 12 مربے نکل آئے ہیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ شیخ سعید اور سیف الرحمان نواز شریف کے فرنٹ مین ہیں، شیخ سعید نواز شریف کے ساتھ ہر عرب ملک کی میٹنگ میں ہوتے تھے، ان ملاقاتوں میں پاکستانی سفیروں کو بھی شرکت کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ صدر نیشنل بینک نے تسلیم کیا کہ وہ جعلسازی کرتے پکڑے گئے تھے۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ نیشنل بینک کے موجودہ صدر کی بات کر رہے ہیں۔

شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہم نے دو متفرق درخواستیں دائر کی ہیں، ایک درخواست جلد 10 فراہم کرنے سے متعلق جب کہ دوسری درخواست جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات سے متعلق ہے، دستاویزات اکٹھی کرنے میں جے آئی ٹی نے قانون کی خلاف ورزی کی، جے آئی ٹی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اس میں شامل دستاویزات کو ثبوت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

جے آئی ٹی عدالتی احکامات سے کافی آگے چلی گئی تھی اور جے آئی ٹی نے عدالت کے کرنے والا کام کیا، رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکتا۔خواجہ حارث کے دلائل پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اپنے دلائل کوایشوز تک محدود رکھیں تو آسانی ہو گی، چاہتے ہیں عوام اور عدالت کا وقت ضائع نہ ہو۔ جے آئی ٹی ٹرائل نہیں کر رہی تھی، الزامات اس نوعیت کے تھے کہ تحقیقات کروانا پڑیں اور گواہان کے بیانات آرٹیکل 161 کے تحت ریکارڈ کیے گئے۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اپنے الفاظ کا چناو احتیاط سے کریں۔ خواجہ حارث کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی سماعت کل کے لیے ملتوی کردی گئی۔واضح رہے کہ جے آئی ٹی نے گزشتہ ہفتے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی تھی۔ 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں نواز شریف سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات اور اس سے متعلق شواہد سامنے لائے گئے ہیں۔قبل ازیں شریف فیملی کے وکلاءنے جے آئی ٹی رپورٹ اعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے ہیں،درخوات میں موقف اختیار کیاگیا ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا اور اس رویہ غیر منصفانہ تھا۔

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ہماری درخواست منظور کرتے ہوئے جے آئی ٹی رپورٹ مستردکرے۔شریف خاندان نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔مدعا الیہان کی جانب سے سماعت کے آغاز میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو جن 13 سوالات کے جوابات معلوم کرنے کو کہا تھا ان پر کوئی کام نہیں کیا گیا اور کمیٹی نے اپنی حدود سے تجاوز کیا۔

سماعت کے آغاز پر شریف خاندان کی جانب سے جمع کروائے جانے والے اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے اور رپورٹ میں غیر جانبداری کا عنصر موجود نہیں ہے۔شریف خاندان اور ان کے وکلا نے رپورٹ کی جلد 10 کی نقل حاصل کرنے کی استدعا بھی کی ہے۔ یہ جلد جے آئی ٹی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے خفیہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ وفاقی وزیرخزانہ اور وزیراعظم نوازشریف کے سمدھی اسحاق ڈارکی جانب سے بھی سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی پر اعتراضات پر مبنی متفرق درخواست جمع کراوائی گئی ہے جس میں رپورٹ کے مندرجات حقائق کے منافی، بدنیتی پر مبنی قرار دیا گیا ہے۔

اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ میرے تمام آمدنی اور اثاثوں کی تفصیل ثبوتوں کے ساتھ 1983 سے 2016 تک موجود ہے،جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں 2003 سے 2008 کی تفصیلات بھی شامل ہیں جب میں ملک سے باہر تھا۔درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی بد نیتی اس سے ثابت ہے کہ اس نے خیرات میں دی گئی رقوم سے متعلق بھی سوالات پوچھے بغیر اس بات کی تصدیق کئے کہ میں نے ٹیکس سے استثنا بھی نہیں مانگا۔

رپورٹ میں حقائق کو گھڑا گیا ہے۔اسحاق ڈار کے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ سے تجاوز ہے، جے آئی ٹی رپورٹ میں میری اس آمدنی اوراثاثوں کا بھی ذکر کیا گیا جس کا سپریم کورٹ کے حکم میں ذکر تک نہیں۔انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے حدود سے تجاوز کرنے کی کسی وجہ کا ذکر رپورٹ میں نہیں کیا، جے آئی ٹی نے غلط طور پر رپورٹ میں لکھا کہ میں نے انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کیے اور اثاثے چھپا کر ٹیکس چوری کی۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ جے آئی ٹی نے میری آمدنی اور دولت سے متعلق جو لکھا اس بارے مجھ سے کوئی سوال نہیں پوچھا۔جن اثاثوں میں اضافے کا لکھا اس بارے مجھ سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا اور اگر پوچھا گیا ہوتا تو جے آئی ٹی کو اثاثوں میں اضافی دستاویزی ثبوت سے ثابت کرتا۔اسحاق ڈار کے کہا کہ میں جے آئی ٹی رپورٹ میں لگائے گئے تمام بلواسطہ اور بلاواسطہ الزامات کی تردید کرتا ہوں، میرے بارے میں جے آئی ٹی کی رپورٹ حقائق کے منافی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی رپورٹ میں بارے میں الزامات خود ساختہ اورجعلی ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی نے مجھ سے شکایت کی کہ 2003 سے 2007 اور 2001 کا ٹیکس ریکارڈ ایف بی آر نے نہیں دیاجبکہ 3 جولائی 2017 کو میں نے تمام ٹیکس دستاویزات خود جے آئی ٹی کو بھجوائیں۔جے آئی ٹی نے رات8بجکر55 منٹ پر تمام دستاویزات کی وصولی کی رسید دی جو لف ہے، میں نے ایف بی آر کو جے آئی ٹی سے مکمل تعاون کے احکامات دیئے۔

اگر جے آئی ٹی عدم تعاون سے متعلق ایف بی آر کے خلاف کوئی شکایت کرے گی تو ایکشن لوں گا۔انہوں نے کہا کہ میرا 2002 تک کا تمام ریکارڈ 1999 کی فوجی بغاوت کے بعد نیب کے پاس تھا، میرے تمام ٹیکس ریکارڈ ایف بی آر کو اب نیب سے ملے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ایف بی آر نے بھی 8 جولائی کو میرا مکمل ٹیکس ریکارڈ جے آئی ٹی کو جمع کرایا۔اسحاق ڈار نے بتایا کہ ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس وصولی کی رسید بھی درخواست کے ساتھ موجود ہے، میرے دولت ٹیکس کی تفصیلات جے آئی ٹی کو 30 مئی اور 30 جون کو دی گئیں۔

جے آئی ٹی چاہتی تو نیب سے ہی میرا تمام ریکارڈ نکلوا سکتی تھی۔ جے آئی ٹی میں نیب کا نمائندہ بھی موجود تھا۔انہوں نے کہا کہ دکھ ہے کہ جے آئی ٹی نے دیئے گئے اس ریکارڈ کا کوئی تذکرہ نہیں کیا، الٹا لکھا کہ کوئی ریکارڈ نہیں دیا گیا۔ جے آئی ٹی نے مجھے بدنام اور عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

متعلقہ عنوان :