وزیراعظم نوازشریف نے سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات جمع کرا دئیے

جے آئی ٹی ممبران نے شریف خاندان کی کرپشن کے ثبوت بیرون ممالک سے حاصل کرنے کیلئے قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا،جے آئی ٹی کرپشن کے وہ ثبوت لے آئی ہے جس کا مینڈیٹ عدالت نے فراہم ہی نہیں کیا،موقف

پیر 17 جولائی 2017 20:16

وزیراعظم نوازشریف نے سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات جمع ..
ْ اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 جولائی2017ء) وزیراعظم نوازشریف نے سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات جمع کرا تے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ جے آئی ٹی ممبران نے شریف خاندان کی کرپشن کے ثبوت بیرون ممالک سے حاصل کرنے کے لئے قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا،جے آئی ٹی کرپشن کے وہ ثبوت لے آئی ہے جس کا مینڈیٹ عدالت نے فراہم ہی نہیں کیا۔

سوموار کو شریف خاندان کی طرف سے جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات خواجہ حارث نے جمع کرائے جن میں نوازشریف نے جے آئی ٹی کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا کی ہے،کیونکہ جے آئی ٹی نے عدالت کی جانب سے دئیے گئے مینڈیٹ سے تجاوز کرکے شریف خاندان کے خلاف ثبوت اکٹھے کئے ہیں۔

(جاری ہے)

جے آئی ٹی ممبران کا یہ رویہ بدنیتی پر مبنی اور متعصبانہ ہے جس کو کسی حال میں بھی ہم قانونی جواز نہیں دے سکتے۔

جے آئی ٹی نے حدیبیہ پیپرمل اور چوہدری شوگر مل کے علاوہ نیب میں اٹھارہ مقدمات کی از سر نو تحقیقات کے بارے میں بھی رائے دی ہے حالانکہ عدالت نے اس حوالے سے جے آئی ٹی کو کوئی حکم نہیں دیا تھا۔اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ بیرونی ممالک سے شواہد اکٹھے کرنے کیلئے باہمی تعاون معاہدت کا سہارا لیا گیا ہے جبکہ قواعد کے مطابق جے آئی ٹی کو بیرون ممالک سے قانونی تعاون دفتر خارجہ کے ذریعے سے لینا ہوتا ہے جبکہ جے آئی ٹی نے از خود بیرونی حکومتوں سے رابطہ کیا جس کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

جے آئی ٹی ممبران نے فرموں کی مدد لے کر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے عدالت اس کا بھی نوٹس لے۔اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے بیرونی ممالک سے جتنی دستاویزات منگوائیں یا جن پر بھروسہ کیا وہ غیر مصدقہ ہیں ان دستاویزات پر کسی مجاز اتھارٹی کے دستخط نہیں ہیں۔جے آئی ٹی نے بیرون ممالک سے حاصل کی گئی دستاویزات پر مجاز افسر کی شہادت بھی نہیں ریکارڈ نہیں کی، جے آئی ٹی کی اس رپورٹ میں ٹھوس ثبوت کا کوئی وجود نہیں ہے،اگر جے آئی ٹی رپورٹ کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جے آئی ٹی کے تمام ممبران نے اپنی سفارشات میں وزیراعظم کیخلاف متعصبانہ رویہ اختیار کیا،قانون کی نظر میں جے آئی ٹی رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔

جے آئی ٹی نے بیانات ریکارڈ کرتے ہوئے گواہوں کی تضحیک اور انکو دھمکیاں دیں تاکہ وہ بیانات نوازشریف کیخلاف تبدیل کریں یا واپس لیں۔سرکاری اداروں سے جس طریقے سے دستاویزات لی گئیں وہ غیرقانونی تھا۔ جے آئی ٹی نے ان مقدمات کو دوبارہ کھولنے کی سفارش کی جس کو لاہور ہائی کورٹ بند کرچکی تھی۔حدیبیہ پیپر مل کی لاہورہائیکورٹ ختم کرچکی ہے ،عدالت نے حدیبیہ پیپرمل کیس کی تحقیقات کرنے کا حکم نہیں دیا تھا ، ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد دوبارہ تحقیقات نہیںکی جا سکتی ،جے آئی ٹی کے پاس حدیبیہ پیپر چوہدری شوگر مل اور زیر التواء مقدمات پر آبزرویشن دینے کا مینڈیٹ نہیںت تھا،شفاف تحقیقات کے بغیر شفاف ٹرائل نہیں ہو سکتا ،جے آئی ٹی کی تحقیقات میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا ،جے آئی ٹی کی جانب سے دستیاب ریکارڈ پر جرح نہیں کی گئی ،جے آئی ٹی کی رپورٹ نامکمل ہے ،رپورٹ پر وزیراعظم نواز شریف اور شریف خاندان کیخلاف کوئی حکم جاری نہیں کیا جاسکتا ،اعتراضات میں مزید کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے عدالت کی جانب سے دیئے گے ساٹھ دنوں میں چھ دن تجاوز کیا ہے ،جے آئی ٹی کو مزید کوئی دستاویز پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ،جے آئی ٹی نے اکھٹی کی گئی دستاویزات پر فریقین سے کوئی وضاحت نہیں مانگی ،جے آئی ٹی نواز شریف کیخلاف کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کر سکی ہے ، جے آئی ٹی نے غیر قانونی طور پر دستاویزات کے لیے چیئرمین نیب کو بلایا گیا ،شریف خاندان کیخلاف غیر مصدقہ دستاویزات اور سنی سنائی باتوں پر نتائج اخذ کیے گے ،نوازشریف نے جے آئی ٹی کے ممبران پر دوبارہ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے ہم نے پہلے ہی جے آئی ٹی کے ممبران کے ماضی کے کردار کے حوالے سے آگاہ کر رکھا تھا لیکن ہمارے خدشات کا نوٹس نہیں لیا گیا، جے آئی ٹی کے رکن بلال رسول کے پی ٹی آئی اور ق لیگ سے قریبی تعلقات ہیں مجبکہ عامر عزیز مشرف دور میں حدیبیہ پیپر مل کی تحقیقات کرتے رہے ہیں ،نیب کے عرفان نعیم منگی کی تعیناتی پر ہی سوالیہ نشانات ہیں ،جے آئی تی کی تشکیل کے وقت آئی ایس آئی کا نمائندہ اپنے ادارے میں آفسر نہیں تھا ،نمائندے کا بطور سورس تعیناتی کا انکشاف ہوا ہے ،سورس ایمپلائی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی ،سرکاری دستاویزات میں نمائندے کی تنخواہ کا بھی ذکر نہیں ہے ، جے آئی تی کے سربراہ واجد ضیاء نے اپنے کزن کی فرم کی قانونی معاونت حاصل کی ،قانون کے مطابق نجی فرم کی خدمات حاصل نہیں کی جاسکتی ،عدالت اس کا بھی نوٹس لے۔

وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ عدالت جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات کی روشنی میں جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کر دے ۔