اداروں کے درمیان تصادم کو روکنے کی ذمہ داری صرف میری نہیں ہے۔ عوام کے ووٹ کے تقدس کو مجروح نہیں ہونے دیں گے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔میاں نوازشریف

کبھی آئین سے انحراف نہیں کیا، جو قانون کہتا ہے اس کے مطابق چلا ہوں۔اگر کوئی قانون کی حکمرانی یا آئین پر یقین نہیں کرتا تو میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ جے آئی ٹی میں کٹر اور بدترین مخالفین‘ لوگ شامل تھے-برطانوی نشریاتی ادارے سے خصوصی انٹرویو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 17 اگست 2017 21:13

اداروں کے درمیان تصادم کو روکنے کی ذمہ داری صرف میری نہیں ہے۔ عوام کے ..
لاہور (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 اگست۔2017ء) سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ اداروں کے درمیان تصادم کو روکنے کی ذمہ داری صرف ان کی نہیں ہے۔ عوام کے ووٹ کے تقدس کو مجروح نہیں ہونے دیں گے اور اس کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں عوامی مینڈینٹ کو پامال کیا گیا تو عوام ٹینکوں کے سامنے آئے اور انھوں نے فوج کو پیچھے دھکیل دیا جس کی حالیہ مثال ترکی کی ہے، کیا پاکستان بھی ایسے ہی ٹکراﺅ کی جانب بڑھ رہا ہے تو نواز شریف نے کہا کہ وہ اداروں کے مابین ٹکراﺅ کے حق میں نہیں ہیں۔

سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ٹکراﺅ کے خلاف صرف مجھے ہی نہیں ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

سب کو ہونا چاہیے اور ٹکراﺅ کی کیفیت پیدا نہیں ہونی چاہیے اور اداروں کے مابین تصادم نہیں ہونا چاہیے، یہ صرف میرے اکیلے کی ذمہ داری نہیں، سب کی ذمہ داری ہے۔نواز شریف نے کہا کہ یہ تاثر ٹھیک نہیں ہے کہ ان کی فوج کے تمام سربراہوں کے ساتھ مخالفت رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ کچھ جرنیلوں کے ساتھ یقیناً بنی بھی ہے، اچھی بنی ہے۔ اور میں یہ نے کبھی آئین سے انحراف نہیں کیا، جو قانون کہتا ہے اس کے مطابق چلا ہوں۔اگر کوئی قانون کی حکمرانی یا آئین پر یقین نہیں کرتا تو میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔نواز شریف نے کہا کہ اس ملک کو چلانے والوں نے جو اس ملک کے ساتھ کیا ہے خاص طور پر آمریت نے، وہ پاکستان کی تباہی کا ایک نسخہ تھا۔

نواز شریف نے کہا کہ جب پرویز مشرف نے مارشل لا لگایا تھا، مشرف میرے خلاف تھا، مشرف کے کچھ ساتھی میرے خلاف تھے لیکن باقی فوج میرے خلاف نہیں تھی۔باقی فوج کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ مارشل لا لگ چکا ہے۔اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب ہم نے اس مرض کی تشخیص کر لی ہے کہ جس کی وجہ سے اس ملک میں تمام مشکلیں اور مصیبتیں جھیلنی پڑی ہیں۔اس کے لیے ملک کی ایک سمت کا تعین کرنا ضروری ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم ووٹ کے تقدس کا احترام کریں گے۔

اب وہ ووٹ کے تقدس کی بحالی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ احتجاج نہیں ہے بلکہ ایک مہم ہے، میں یہ اس لیے نہیں کر رہا کہ میں دوبارہ منتخب ہو کر وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھوں، وہ پھولوں کا بستر نہیں کانٹوں کی سیج ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنا بذات خود ایک قربانی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ عمران خان کے بارے میں کیا کہوں، ان کی باتوں کا جواب نہ دینا ہی اچھا ہے۔

آصف علی زرداری کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے کچھ نہیں مانگا اور نہ کوئی مانگنے کا ارادہ ہے۔اداروں کے مابین گرینڈ ڈائیلانگ کے حوالے سے سینیٹ چیئرمین رضا ربانی کی تجویز پر نواز شریف نے کہا کہ یہ ڈائیلاگ وقت کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے کچھ دوستوں سے کہا ہے کہ وہ رضا ربانی کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور ان سے پوچھیں کہ ان کہ ذہن میں اس کا کیا خاکہ ہے۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے تھے اور آج تک اس کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔’اس کی ایک خلاف ورزی ہوئی تھی جو ایک این آر او سائن ہوا تھا، مشرف اور کچھ فریقوں کے درمیان وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ نہ ہوتا تو اچھا تھا۔پاناما مقدمے کے حوالے سے نواز شریف کا کہنا تھا کہ چار مہینے تک یہ مقدمہ چلا، پھر جے آئی ٹی بنی، یہ جے آئی ٹی کس طرح بنی اس ساری کہانی آپ کے سامنے ہے۔

انھوں نے کہا کہ جے آئی ٹی میں شامل لوگ ان ’کٹر اور بدترین مخالفین‘ میں سے تھے۔ اس جے آئی ٹی کے سامنے ہمارا پورا خاندان پیش ہوا۔وزیراعظم نواز شریف نے اپنی نااہلی سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ چار سال ہوگئے ہماری حکومت قائم ہوئے اور واضح مینڈینٹ تھا‘ پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر تھی اور اس نے دھاندلی دھاندلی کی رٹ شروع کر دی جس میں طاہرالقادری بھی شامل ہوگئے۔

انھوں نے کہا کہ دھرنوں سے ترقی کا پہیہ تقریبا جام ہوگیا اور دھرنے والے وزیراعظم ہاﺅس، پالیمان کی گیٹ اور دیگر اداروں کے سامنے پہنچ گئے تھے اور کہتے تھے کہ ہم وزیراعظم کو گلے میں رسہ ڈال کر وزیراعظم ہاوس سے باہر نکالیں گے۔جمہوریت تو کیا آمریت بھی میں ہم نے ایسی چیزوں کو کم ہی دیکھا ہے۔انھوں نہ کہا کہ یہ دھرنا ختم توا تو پاناما کا معاملہ سامنے آگیا جس میں انھوں نے دوبارہ دھرنا دینے کی کوشش کی۔

ان دنوں سی پیک کا معاملہ بڑی بری طرح متاثر ہوا اس کے باجود ملک نے ترقی کی ہے۔ان کا مقصد شروع دن سے یہی تھا کہ نواز شریف کو ووٹ کیوں مل گیا ہے، کیوں یہ وزیراعظم بنا ہے اور اس کو وزیراعظم کی سیٹ سے نیچے اتارا جائے۔ جہاں مقصد ہی یہ ہو وہاں باقی چیزوں کی کیا قیمت رہ جاتی ہے۔

متعلقہ عنوان :