پاکستانی عالمِ دین کا پولیو کے خاتمے تک مکمل تعاون کا اعادہ

رواں سال اب تک پولیو سے متاثرہ صرف 4 کیسز مشاہدے میں آئے، بھی قسم کی غفلت بچے کو عمر بھر کی جسمانی معذوری کا شکار بنا سکتی ہے، پاکستان بھر میں پولیو کے حفاظتی قطروں سے محروم رہ جانے والے بچوںمیں ویکسین کی قبولیت کے حوالے سے مذہبی رہنمائوں اور عالم دین کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں،سینیٹر عائشہ رضا فاروق

منگل 12 ستمبر 2017 16:07

پاکستانی عالمِ دین کا پولیو کے خاتمے تک مکمل تعاون کا اعادہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 ستمبر2017ء) قومی اسلامی مشاورتی گروپ (NIAG) نے پولیو کے موذی وائرس کو جڑ سے اکھااڑ پھینکنے اور مکمل تدارک تک پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے جاری پروگرام کے لیے تعاون کی فراہمی جاری رکھنے کا اعادہ کیا ہے۔ قومی اسلامی مشاورتی گروپ (NIAG) کی مرکزی شوریٰ کے اراکین کا اجلاس نیشنل ایمرجنسی اپریشنز سینٹر میں منعقد ہوا جس میں قومی و صوبائی سطح پر ترتیب دی گئی حکمت عملی کا تفصیلی جا ئزہ لیا گیا۔

اجلاس میں نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان (NEAP) 2017-18 کے تناظر میں پولیو کے خاتمے کے لیے جاری پروگرام کی حکمت عملی پر تفصیلی غور کے بعد اسے حتمی شکل دی گئی۔رواں سال کے دوران اب تک پولیو سے متاثرہ صرف 4 کیسز مشاہدے میں آئے ہیں جو کہ ہمارے مقصد کے حصول میں ایک مثبت اور انتہائی اہم پیش رفت ہے۔

(جاری ہے)

لہذا یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشکل ترین دور اب ختم ہو چکا ہے تاہم پولیو کے مکمل خاتمے اور پولیو کیسز کی تعداد کو صفر پر لانے کا ہدف تاحال حاصل نہیں کیا جا سکا اور اس کے لیے ہمیں اپنی جدوجہد کو پوری قوت کے ساتھ مزید جاری رکھنا ہو گا۔

ماحولیاتی نگرانی کے پروگرام سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حساس قرار دیے گئے علاقوں کراچی، کوئٹہ، قلعہ عبداللہ اور جڑواں شہر راولپنڈی-اسلام آباد سے اکھٹے کیے گئے نکاسی آب اور ماحولیاتی نمونہ جات کی تشخیص میں ابھی بھی پولیو وائرس کی ممکنہ موجودگی کے نتائج سامنے آئے ہیں۔ لہذا ان علاقوں میں پولیو وائرس کو شکست دینے کے حوالے سے ہمیں پوری توجہ کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنا ہو گی۔

جبکہ خیبر-پشاور کے علاقوں میں حاصل کردہ مثبت نتائج کا استحکام بلاشبہ ایک دشوار گزار عمل ہو گا۔قومی اسلامی مشاورتی گروپ کے نام اپنے ایک پیغام میں وزیر اعظم کی نمائندہ خصوصی برائے پولیو تدارک، سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے والدین اور کمیونٹی کے لوگوں کی جانب سے پولیو پروگرام کے بارے میں تحفظات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مذہبی رہنمائوں اور عالم دین کے انہتائی موثر کردار ادا کرنے کو خوب سراہتے ہوئے کہا کہ عالم دین اور مذہبی رہنما ہمارے بچوں کو پولیو کے موذی مرض سے بچائو کے لیے پولیو کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جانے والے بچوں تک رسائی اور انہیں حفاظتی قطرے پلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم طے شدہ اہداف کے حصول کے لیے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔

سینیٹر عائشہ رضا فاروق کا کہنا تھا ، "پولیو وائرس کے نتیجے میں جسمانی معذوری کے شکار بچوں کی تعداد کو کم ترین سطح پر لانے کی مثبت پیش رفت کے باوجود ہمیں اپنے ہر ایک بچے کو اس موذی لعنت سے محفوظ رکھنے اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے تک اپنی جدہجہد کو جاری رکھنا ہی"۔ ان کا مزید کہنا تھا، "والدین اکثر مجھ سے ایک سوال پوچھتے ہیں کہ بچے کو کتنی بار پولیو سے بچائو کے حفاظتی قطرے پلانے چاہئیں پولیو سے بچائو کے حفاظتی قطرے ویکسینیشن کا ایک محفوظ عمل ہے۔

طبی نقطہ نظر سے اس کی کوئی حد مقرر نہیں کہ آپ بچے کو کتنی بار یہ حفاظتی قطرے پلواتے ہیں۔ پولیو ایک ایسا موذی مرج ہے جو آپ کے بچے کو نہ صرف عمر بھر کے لیے جسمانی معذوری کا شکار بنا سکتا ہے بلکہ بعض اوقات یہ موذی وائرس جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ پولیو ایک لاعلاج مرض ہی! تاہم پولیو سے بچائو کے حفاظتی قطرے آپ کے بچے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

پولیو کے حفاظتی قطرے دیوار میں چنی اینٹوں کی مانند ہیں، اگر آپ اپنے بچے اور اس دشمن مرض کے درمیان ایک مظبوط دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مزید اینٹیں درکار ہونگی"۔ نیشنل ایمرجنسی اپریشنز سینٹر کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر رانا محمد صفدر کا کہنا تھا کہ "پولیو کے موذی وائرس کو اس کی ممکنہ آماجگاہوں تک محدود رکھتے ہوئے اس کے مکمل تدارک تک ہمیں اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا ہے۔

ہر وہ بچہ جو پولیو کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جاتا ہے وہ نہ صرف کمیونٹی بلکہ پوری قوم کے لیے ایک خطرہ ہے۔ حالیہ زیر مشاہدہ کیسز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پولیو کے موذی وائرس کی وجہ جسمانی معذوری کے شکار زیادہ تر بچوں کی تعداد ایسی تھی جو والدین کے انکار یا دیگر وجوہات کی بنا پر پولیو سے بچائو کء حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ گئے تھے۔

اعدادوشمار سے یہ واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ سال پولیو مہم کے دوران ابھی بھی ایسے بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو کسی نہ کسی وجہ سے ہر مرتبہ پولیو سے بچائو کء حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جاتیتھے ط ہم آئندہ منعقدہ پولیو مہم کے دوران اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی کیونکہ ہم بچوں کی صحت کو کسی بھی ناگہانی صورتحال سے ہمکنار نہیں کر سکتی"۔

قومی اسلامی مشاوری گروپ کی مرکزی شوریٰ کے سربراہ مولانا حنیف جالندھری کا کہنا تھا، "بچوں کو پولیو سے بچائو کے حفاظتی قطرے پلوانا اسلامی شریعہ اور دینی تعلیمات کے عین مطابق ہے جبکہ بچوں کی صحت اور انکی زندگیوں کا تحفظ ہمارا اولین دینی فریضہ ہے۔ میں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اپنے پوتے پوتیوں/نواسے نواسیوں کو ہمیشہ جب بھی پولیو ٹیم ہمارے گھر آئے تو انہیں لازمی پولیو سے بچائو کے حفاظتی قطرے پلوائوں"۔

مولانا جالندھری کا مزید کہنا تھا، " پولیو مہم میں ہمارا تعاون اس وقت تک جاری رہے گا جب تک پاکستان سے پولیو کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا اور ہم اپنے تمام بچوں کو اس موذی وائرس سے مکمل تحفظ فراہم نہیں کر لیتی"۔ سابق وفاقی وزیر اور پولیو پلس علمائ کمیٹی کے سربراہ مولانا حنیف طیب کا کہنا تھا، "بطور علمائ دین اور مذہبی رہنما یہ ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ والدین پانچ سال تک کی عمر کے اپنے تمام بچوں کو پولیو سے بچائو کے حفاظتی قطرے لازمی پلائیں اور خاص طور پر ایسے بچوں کو پولیو مہم کے دھارے میں لائیں جنہوں نے پہلے کبھی بھی پولیو سے بچائو کے حفاظتی قطرے نہ پیے ہوں یا پھر کسی وجہ سے محروم رہ گئے ہوں۔

یہ والدین کا مذہبی فریضہ ہے۔ کسی بھی قسم کی غفلت بچے کو عمر بھر کی جسمانی معذوری کا شکار بنا سکتی ہی"۔ پاکستان بھر میں پولیو کے حفاظتی قطروں سے محروم رہ جانے والے بچوں اور لوگوں میں ویکسین کی قبولیت کے حوالے سے مذہبی رہنمائوں اور عالم دین کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ قومی اسلامی مشاورتی گروپ (NIAG) کا قیام اسلامی مشاورتی گروپ کی سفارشات پر جون 2013 کوعمل میں آیا۔ مذہبی رہنمائوں اور عالم دین ملک بھر میں پولیو سے بچائو کی حفاظتی ویکسین کی افادیت و اہمیت، والدین اور کمیونٹی کے تحفظات او غلط فہمیوں کے تدارک اور عوامی حلقوں میں پولیو ویکسن کے حوالے سے اعتماد سازی میں انتہائی موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :