پاکستان افغان مسئلے کے پرامن حل کیلئے اس خطے کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ پرعزم ہے،

پاکستان نے افغانستان میں عدم استحکام کی بناء پر بھاری نقصان اٹھایا ہے ، افغانستان کے مسئلے کا حل افغان قیادت میں افغان عوام کی حمایت پر مبنی ہونا چاہئے پاکستان امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے تعلقات کئی دہائیوں پر مشتمل ہیں اور انہیں صرف مسئلہ افغانستان کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے، دہشت گردی کا مسئلہ بلاشبہ پاکستان کیلئے باعث تشویش ہے، اس کے حل کیلئے اس نے بہت کچھ کیا ہے، ہم نے اسے شکست دی ہے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نمائندوں کو انٹرویو

منگل 12 ستمبر 2017 23:47

پاکستان افغان مسئلے کے پرامن حل کیلئے اس خطے کے کسی بھی دوسرے ملک کے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 ستمبر2017ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان افغان مسئلے کے پرامن حل کیلئے اس خطے کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ پرعزم ہے،پاکستان نے افغانستان میں عدم استحکام کی بناء پر بھاری نقصان اٹھایا ہے ، افغانستان کے مسئلے کا حل افغان قیادت میں افغان عوام کی حمایت پر مبنی ہونا چاہئے۔

انہوں نے یہ بات منگل کو بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نمائندوں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ وزیر اعظم نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کیلئے تیار ہے کیونکہ دونوں ممالک کے تعلقات کئی دہائیوں پر مشتمل ہیں اور انہیں صرف مسئلہ افغانستان کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے، دہشت گردی کا مسئلہ بلاشبہ پاکستان کیلئے باعث تشویش ہے اور اس کے حل کیلئے اس نے بہت کچھ کیا ہے، ہم نے اسے شکست دی ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے اس امر کا اعادہ کیا کہ پاکستان قریبی تعاون کا خواہاں ہے کیونکہ پاک افغان تعلقات عشروں پرانے ہیں اور کسی ایک مسئلے کی بنیاد پر ان کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ بلاشبہ پاکستان کیلئے باعث تشویش ہے اور اس کے حل کیلئے اس نے بہت کچھ کیا ہے، ہم نے اسے شکست دی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے میڈیا نمائندوں سے کہا کہ وہ میرانشاہ کا دورہ کریں اور خود اس بات کا مشاہدہ کریں کہ پاکستان کی فوج نے کس طرح دہشت گردی کیخلاف جنگ میں عظیم قربانیاں پیش کرتے ہوئے علاقے کو کلیئر کیا ہے۔

وزیراعظم نے پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے بارے میں الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے سرحدی علاقوں کے ساتھ شمالی وزیرستان بھی ویسا ہی علاقہ ہے تاہم انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) نے وہاں کیا حاصل کیا انہوں نے اس امر کا اعادہ کیا کہ پاکستان مشترکہ گشت اور چوکیوں کیلئے تیار ہے اس نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگائی ہے اور اگر دوسری جانب سے ایسا کیا جاتا ہے تو وہ اس کا خیر مقدم کرے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ دوسری جانب سے دہشت گردوں کی موجودگی، پاکستانی سرحدی علاقوں پر حملوں کے حوالے سے پاکستان کے خدشات دور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحد کی دوسری جانب سے بہت کچھ ہو رہا ہے ۔ انہوں نے اس تاثر کو یکسر رد کر دیا کہ حملے پاکستانی علاقے سے کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے الزامات مکمل طور پر غلط ہیں۔ (شدت پسندوں کی) قیادت افغانستان میں موجود ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے 35لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کی۔ ہم نے افغان افواج کو پاکستان میں آ کر تربیت حاصل کرنے کی پیشکش کی ہے تاکہ وہ دہشت گردی سے موثر طور پر نبردآزما ہونے کیلئے خود کو بہتر طورپر تیار کر سکیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں حکومت کی اچانک تبدیلی کے بعد نئی حکومت نے ایک ہفتے کے اندر کام شروع کیا اور اب معاملات معمول کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کا مینڈیٹ جمہوری عمل کو مکمل کرنا اور جاری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں جمہوری نظام وقت گزرنے کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہا ہے، ریاستی اداروں کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔ وزیراعظم نے اس امر کو سختی سے رد کر دیا کہ ملک میں جمہوریت پٹڑی سے اتر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری نظام کے بارے میں بحث میں شدت زور پکڑ سکتی ہے لیکن بالآخر یہ معاملہ طے پا جائے گا۔

’’بریکس‘‘ اعلامیے کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ یہ بیان پاکستان کیلئے مخصوص نہیں ہے اس میں بعض کالعدم تنظیموں کے بارے میں بات کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے حوالے سے پاکستان اور چینی حکومتوں کی پالیسی میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ خارجہ پالیسی پاکستان کی حکومت کے تابع ہے اور فوج حکومت کا حصہ ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنے سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے کم سے کم افراط زر کے ساتھ آئی ایم ایف پروگرام کامیابی سے مکمل کیا ہے۔

وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کرنا پڑے گا۔ توقع ہے کہ حکومت دانشمندانہ اقتصادی پالیسیوں کے تحت اپنے معاشی اہداف حاصل کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی سب سے بڑی کامیابی افراط زر کی شرح کو کم سے کم رکھنا ہے۔ حکومت اقتصادی چیلنجوں پر قابو پا لے گی اور وہ اپنی شرح نمو کے ساتھ آگے بڑھنے کا عزم رکھتی ہے۔

چیلنجز ہمیشہ موجود ہوتے ہیں لیکن حکومت ان چیلنجز پر توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹاک ایکسچینج بھی آنے والے دنوں میں اوپر جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ اقتصادی مسائل یقیناً ایک چیلنج ہیں لیکن ہم ان سے نبردآزما ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی نہیں کی جا رہی، ہم ٹیکس بنیاد کو وسعت دے رہے ہیں اور ٹیکس دہندگان کو مراعات دینے کا جامع منصوبہ رکھتے ہیں۔

پاک امریکہ تعلقات میں اتارچڑھائو سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور عسکری تعلقات استوار ہیں، یہ مزید مضبوط ہونگے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ امریکہ نے صدر ٹرمپ کے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں پالیسی بیان سے پیدا ہونے والے بعض تاثرات کو واضح نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امداد کی بجائے مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان اشتراک کار اور تعاون پایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اور امریکی کمپنیوں کیلئے یہاں اربوں ڈالر کے مواقع ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات کے آغاز سے ہی قابل قدر روابط موجود ہیں، ہم دہشت گردی کیخلاف امریکہ کے ساتھ ملکر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اگر دونوں ممالک کو کوئی خدشہ ہے تو اسے دور کیا جانا چاہئے۔

ہم ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی اسی کی توقع رکھتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر پاک بھارت کشیدگی کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ پرامن تعلقات قائم رکھنے کیلئے کوششوں کا خیر مقدم کیا اور وہ اس مسئلے کو پرامن طور پر حل کرنے کا خواہاں ہے۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں اپنے خطاب سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں اپنا نکتہ نظر اجاگر کریں گے جس میں افغانستان اور بھارت کا احاطہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 120 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھایا ہے اور عالمی برادری کو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہئے۔ صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد وزیر خارجہ خواجہ آصف کے چار ممالک کے دوروں کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ وزیر خارجہ دنیا کے بڑے دارالحکومتوں کا دورہ کر رہے ہیں جہاں ان ممالک کی قیادت کے ساتھ صدر ٹرمپ کا بیان بھی زیر بحث آئے گا۔ خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کی ثالثی سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہم اس معاملے کو دو ممالک کے درمیان کے طور پر دیکھتے ہیں۔