پی ٹی آئی کی طرف سے کورم کی نشاندہی،

حقوق رسائی معلومات بل 2017ء کی شق وار منظوری کا عمل مکمل نہ ہو سکا

بدھ 13 ستمبر 2017 14:48

پی ٹی آئی کی طرف سے کورم کی نشاندہی،
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 ستمبر2017ء) پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے کورم کی نشاندہی کی وجہ سے حقوق رسائی معلومات بل 2017ء کی شق وار منظوری کا عمل مکمل نہ ہو سکا۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے تحریک پیش کی کہ حقوق رسائی ملومات بل 2017ء سینٹ کی منظور کردہ صورت میں فی الفور زیر غور لایا جائے۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ عوامی مرکز میں آتشزدگی کی وجہ سے کئی اداروں کا ریکارڈ جل گیا ہے۔

ریکارڈ کے تحفظ کے لئے بھی قانون بننا چاہیے۔ سارے ریکارڈ کی مائیکرو فلمز بننی چاہئیں۔ ہر چیز کا ریکارڈ جل جاتا ہے جس کا ریکارڈ طلب کیا جائے گا کہا جائے گا کہ جل گیا ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ بل کی شق 7 میں بعض معلومات کی فراہمی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

ہمیں اس پر اعتراض ہے تاہم قومی سلامتی سے متعلقہ معلومات کی عدم فراہمی پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

اس شق کو ٹھیک کیا جائے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ہمیں طریقہ کار پر اعتراض ہے ترامیم پیش کرنے کے لئے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ بل کب پیش ہوگا۔ شازیہ مری نے کہا کہ یہ اہم معاملہ ہے۔ بل کی شق 20ڈی کے تحت ریکارڈ ضائع کرنے کا جرمانہ صرف 50 ہزار رکھا گیا ہے۔ پی ٹی وی میں قومی اسمبلی کی مکمل کارروائی نہیں دکھائی جارہی ہے حالانکہ اپوزیشن کی بھی ساری تقاریر دکھائی جانی چاہئیں۔

بل کو زیادہ موثر بنایا جائے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ بل اس جذبے سے ہونا چاہیے کہ کسی حکومت یا اپوزیشن کا نہیں پورے ملک کے لئے ہونا چاہیے۔ ہم نے اپنے دور میں یہ روایت ڈالی تھی کہ ہم بل اپوزیشن کے حوالے کر دیتے تھے کہ بل کو بہتر بنایا جائے۔ حکومت کو بھی ہماری اس روایت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ اس بل پر اپوزیشن کے ساتھ مزید مشاورت کی جائے۔

وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے خورشید شاہ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بھی بطور اپوزیشن ماضی میں حکومت سے مکمل تعاون کیا۔ ہماری بھی یہی پالیسی ہے مگر مشاورت کے باوجود تنقید برائے تنقید ہوتی ہے۔ الیکشن بل پر 129 اجلاس ہوئے اس کے باوجود تنقید کی گئی۔ زیر غور بل پر بھی بے حد مشاورت کی گئی۔ یہ بل سینیٹر فرحت اللہ بابر کا بل ہے۔

سینٹ کمیٹی نے بل کا بغور جائزہ لے کر منظور کیا ہے۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ اس ایوان کے تمام ارکان یکساں ہیں۔ بلوں کے حوالے سے 90 فیصد ارکان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ہمیں آرڈر آف ڈے اور بل تاخیر سے ملتے ہیں۔ قانون سازی کے حوایل سے صرف تمام جماعتوں کے مخصوص ارکان کو بولنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ تمام ارکان کو اپنی ذمہ داری کا بھی احساس ہونا چاہیے۔

یہ بل تمام ارکان کو 30 ستمبر کو بھجوایا گیا۔ اگر ارکان بھی نہیں پڑھتے تو اس میں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ تمام بلوں کو ایڈوائزری کمیٹی میں زیر بحث لایا جانا چاہیے۔ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ یہ تجویز بھی زیر غور ہے۔ بل ایجنڈے پر آنے سے پہلے ارکان کو ترامیم جمع کرانی چاہئیں۔علی رضا عابدی نے تجویز دی کہ بلوں کو ویب سائٹ پر ڈال دیں تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ بل کے مسودے کے ایک ایک لفظ پر ارکان پارلیمنٹ کو فخر ہونا چاہیے۔ ریکارڈ جلنے کے حوالے سے اپوزیشن کی بات کا ازالہ بھی اس بل میں موجود ہے۔ اس بل پر چاروں صوبوں سے اس طرح کے منظور ہونے والے بلوں سے موازنہ کرکے بہتر بنایا گیا ہے۔ اس بل کے تحت آزاد کمیشن بنے گا۔ اطلاعات تک رسائی آسان ہوگی۔

معلومات کی فراہمی میں دس دنوں کی مہلت دی جائے گی۔ انفارمیشن کمیشن میں ادارے کے پرنسپل اکائونٹنگ کو ریکارڈ کی فراہمی کے حوالے سے مجبوریوں کی بناء پر اپیل کا حق ہوگا۔ اس بل کے تحت پاکستان کے عوام کو اطلاعات تک رسائی کا حق دیا جارہا ہے۔ اس بل میں مکمل طریقہ کار دیا گیا ہے۔ یہ سینٹ کا پرائیویٹ ممبر ڈے بل تھا۔ مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی اور تمام جماعتوں کے منشور کے مطابق ہے۔

11 جنوری 2016 ء کو سابق وزیراعظم نے اس بل پر کابینہ کی کمیٹی قائم کی۔ سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید اس کمیٹی کے سربراہ تھے۔ کامل علی آغا کی سربراہی میں کمیٹی پر اتفاق رائے نہیں ہوا۔ چیئرمین سینٹ نے فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی۔ تمام جماعتوں کے ارکان نے کمیٹی کے 29 اجلاسوں میں زیر غور لایا گیا ہے۔ کمیٹی نے اتفاق رائے سے بل کا مسودہ منظور ہوا۔

انہوں نے کہا کہ بل کی شق 7 پر اعتراض کیا ہے۔اجلاسوں کے منٹس حتمی فیصلے کے بعد پبلک کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی دفعہ اس بل کے تحت لاپتہ افراد سے متعلق تین دنوں کے اندر ادارے اطلاعات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔ انفارمیشن کمیشن کے تمام تقاضے اس قانون میں شامل کردیئے گئے ہیں۔ احتساب ‘ اچھی طرز حکمرانی اور شفافیت کو اس بل کے ذریعے یقینی بنایا جاسکے گا۔

ایوان کو یہ بل نیک جذبے کے ساتھ منظور کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ حتمی فیصلے کے حوالے سے میں نے شق بغور پڑھی ہے۔ دفاعی بجٹ اور دیگر امور کے حوالے سے معلومات کی شق ای میں پابندی عائد کی گئی ہے۔ عوام کا معلومات تک رسائی کا حق اس وقت پورا ہوگا جب یہ پابندیاں ہٹائی جائیں گی۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اگر متعلقہ وزارت نے ہی فیصلہ کرنا ہے تو پھر معلومات مخفی ہی رکھی جائیں گی اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔ بل کی شق 19 میں کمیشن کے کان میں یہ بات ڈالی جانی چاہیے کہ اگر کوئی معلومات دینے سے گریز کرتا ہے تو تمام باتیں انفارمیشن کمیشن میں جانی چاہئیں۔