اثاثے چھپانے والا عوامی نمائندگی کا حقدار نہیں ،جسٹس اعجاز افضل کے ریمارکس

Syed Fakhir Abbas سید فاخر عباس جمعرات 14 ستمبر 2017 11:32

اسلام آباد (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار-14ستمبر2017ء):نواز شریف خاندان کی نظرثانی اپیلوں کی سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی۔وقفے سے پہلے تک سابق میاں محمد نواز شریف کے اکاونٹس ،جے آئی ٹی کے طریقہ کار اور نا اہلی کے فیصلہ کی جزئیات پر بحث ہوئی۔اس موقع پر شریف خاندان خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کواقامہ اور تنخواہ ظاہرنہ کرنے پر نااہل قراردیا گیا،جبکہ اہلی کےلیے قانون میں طریقہ کار واضح طورپر درج ہے۔

تاحیات نااہلی کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ نااہلی کیلیے بلیکس لاء ڈکشنری میں موجود تعریف کا استعمال کیا گیا۔نوز شریف کے مذکورہ کمپنی سے تنخواہ نہ لینے کی دلیل پر عدالت نے کہا کہ قانون شہادت میں تحریر کو زبانی بات پر فوقیت حاصل ہے۔

(جاری ہے)

کمپنی سےتحریری معاہدے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ تنخواہ نہیں لیں گے۔ ہم کیسے مان لیں وہ تنخواہ کو اثاثہ نہیں سمجھتے تھے ۔

معاہدے میں لکھا تھا نواز شریف کو 10ہزاردرہم تنخواہ ملتی ہے۔خواجہ حارث نے دلائل جاری رکتھے ہوئے کہا کہ غلطی کرنے پر آرٹیکل 62ون ایف کا اطلاق نہیں ہوسکتا ۔سمجھنے میں غلطی پر کہا گیا نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے ۔نواز شریف نے کبھی تنخواہ کو اثاثہ سمجھا ہی نہیں ۔اثاثہ نہ سمجھنے کےباعث ظاہر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا ۔ تنخواہ ظاہر نہ کرنا روپا ایکٹ کے 76اے کے تحت آتاہےجبکہ 62ون ایف ایمانداری سے متعلق ہے، اس کیس میں لاگونہیں ہوتااس پر جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر روپا کے تحت کارروائی ہونی چاہیے نااہلی نہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ نواز شریف نے تنخواہ والا اکاؤنٹ ظاہر نہیں کیا۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا تھا کہ اکاؤنٹ چھپایا گیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دستاویزات کے مطابق نوازشریف کا ایمپلائی نمبر194811 ہے ۔ دستاویزات کہتی ہیں کہ تنخواہ وصول کی گئی ہے۔ نواز شریف کے کیپٹل ایف زیڈای اکاونٹ میں اگست 2013کوتنخواہ بھی آئی جے آئی ٹی رپورٹ کےوالیم 9میں رکارڈ موجودہے ۔

نواز شریف کے ہی نام پر ایک ذیلی اکاؤنٹ کھولا گیا تھا۔اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کے کسی اکاونٹ میں ایف زیڈ ای سے کوئی رقم منتقل نہیں ہوئی۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اثاثے چھپانے والا نمایندگی کا حقدار نہیں رہتا۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کے تمام بینک اکاوئنٹس ڈکلئیر ہو چکے ہیں۔نواز شریف کے کسی اکاونٹ میں ایف زیڈ ای سے کوئی رقم منتقل نہیں ہوئی۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ فیصلے میں اکاونٹ کا ذکر نہیں آیا اس پر بات نہ کریں ۔خواجہ حارث نے کہا کہ ہر آمدن اثاثہ نہیں ہوتی ،اثاثہ آمدن بینک میں ہوتی یا جیب میں۔نیب کو براہ راست ریفرنس دائر کرنےکاحکم دیاگیا۔جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پرریفرنس دائرنہیں ہوسکتا،جے آئی ٹی رپورٹ نامکمل ہے۔جے آئی ٹی نے زیادہ تر دستاویزات ذرائع سے حاصل کیں۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں خامیاں ہیں۔اس پرجسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ رپورٹ میں خامیوں کا فائدہ آپ کو ہوگا۔ٹرائل کورٹ میں آپ کو جرح کا مکمل موقع ملے گا۔ٹرائل کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ پر کارروائی کرناتھی۔ہم نے فیصلہ لکھنے میں احتیاط برتی۔ٹرائل کورٹ کو مکمل اختیارہے آزادنہ کارروائی کرے۔خواجہ حارث نے کہا کہ پہلےدنیا میں کہیں نہیں دیکھا کہ کہا گیا ہو کہ ریفرنس تیارکرکے فائل کرو.اس پر عدالت نے کہا کہ مقدمہ درج کرنے کا حکم ٹرائل اور قانونی عمل سے نہیں روکتا۔

اس کے بعد عدالت نے سماعت میں وقفہ لے لیا ۔سماعت کچھ دیر وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوگئی۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عدالت کو 6ماہ کا وقت نہیں دینا چاہیے تھا ۔عدالت تحقیات کا حکم دیتی ہے نہ کہ مقدمہ درج کرنے کا ۔ نگران جج ہوتے ہیں لیکن مخصوص کیس کے لیے تعیناتی نہیں ہوتی، مانیٹرنگ ہوتی ہے پر سپروائزری نہیں ہوتی۔اس اعتراض پر عدالت کا کہنا تھا کہ نیب کا چئیر مین جانبدار تھا جہاں ادارہ بھاگ رہا ہو وہاں عدالت نگرانی کرتی ہے۔

ججز کی نگرانی کوئی نئی بات نہیں ۔ایسی بہت سی مثالی موجود ہیں۔ جج صرف مانیٹرنگ کے لیے ہوتا باریک بینی کےلیے نہیں ۔ہدایات پر عملدرآمد کے لیے نگراں جج تعینات کیا گیا۔خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 20 اپریل کے فیصلے میں گاڈ فادر کا زکر کیا ۔28جوالائی کے فیصلے میں لکھنا چاہیے تھا کہ یہ 20اپریل کے فیصلے کا تسلسل ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر بنا ریفرنس ایک دن میں فارغ ہو جائے گا جس پر جسٹس آصف کہا کہ اگر ایسا ہے تو مسئلہ کیا ہے جائیں ارریفرنس فارغ کروائیں ۔اس کے بعد خواجہ حارث نے دلائل مکمل کر لیے۔