بڑی باتیں نہیں کرتے، جو کیں ان پر آج بھی قائم ہوں، میر عبدالقدوس بزنجو

وفاق سے کہتے ہیں وہ دل بڑا کرکے تین سال سے التوا میں پڑے این ایف سی ایوارڈ پر عملدرآمد کرے ، میر حاصل بزنجو بتائیں 2008ء کے انتخابات کا نیشنل پارٹی نے صوبے بھر میں بائیکاٹ کیا تھا ایسے میں صوبائی اسمبلی میں ان کا ایک رکن بھی موجود نہیں تھا تو پھر وہ کیسے سینیٹر منتخب ہوئے ،وزیراعلی بلوچستان کی پریس کانفرنس

منگل 13 مارچ 2018 21:32

بڑی باتیں نہیں کرتے، جو کیں ان پر آج بھی قائم ہوں، میر عبدالقدوس بزنجو
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 مارچ2018ء) وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ بڑی بڑی باتیں نہیں کرتے جو باتیں کیں ان پر آج بھی قائم ہوں،وفاق سے کہتے ہیں کہ وہ دل بڑا کرکے تین سال سے التوا میں پڑے این ایف سی ایوارڈ پر عملدرآمد کرے ، سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب پر قوم پرست جماعتوں کی باتیں افسوسناک ہیں، یہ بات انہوںنے منگل کو اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچنے پر وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ۔

اس موقع پر صوبائی وزراء میر سرفراز بگٹی ،میر عاصم کرد گیلو ،میر غلام دستگیر بادینی اور امان اللہ نوتیزئی بھی موجود تھے ۔وزیر اعلیٰ نے کہاکہ جب ہمارے چھ سینیٹر منتخب ہوئے تھے تو اس وقت ہم نے یہ کہا تھا کہ چیئرمین سینیٹ اس مرتبہ بلوچستان سے ہونا چاہئے اور شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی حالانکہ یہ ایک مشکل کام تھا چھ سینیٹروں کے ساتھ چیئرمین سینٹ کیلئے مقابلہ کرنا کچھ آسان نہ تھا مگر اللہ تعالی نے ہمارے لئے آسانیاں پیدا کیں پی ٹی آئی اور خاص طور پر آصف علی زرداری کاشکریہ ادا کرتے ہیں جنہوںنے سینیٹ میں اپنی جماعت کی اکثریت ہونے کے باوجود اپنی جماعت کو اس بات پر قائل کیا کہ چیئرمین سینیٹ کیلئے بلوچستان سے ہمارے امیدوار کی حمایت کی جائے جس کے بعد ہماری پوزیشن بہت بہتر ہوگئی ہماری پوزیشن اس وقت زیادہ بہتر ہوئی جب فاٹا کے دوستوں نے ہماری حمایت کی کیونکہ وہ بھی ہماری طرح ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوںنے ہماری غیر مشروط حمایت کی انہوںنے ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کابھی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ جب بلوچستان کا نام آیا تو انہوںنے ہماری حمایت کی چیئرمین سینیٹ کے بلوچستان سے انتخاب سے ملکی سالمیت اور اکائیاں مضبوط ہو ں گی یہ صرف ہماری نہیں پورے بلوچستان کی کامیابی ہے لیکن مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہمارے صوبے کے قوم پرست جماعتوں کے قائدین جو بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے ہیں مگر انہوںنے چیئرمین سینیٹ کیلئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے امیدوار کی حمایت نہ کی حالانکہ ہمیں پوری امید تھی کہ قوم پرستوں کی جانب سے ہماری بھرپور حمایت کی جائے گی مگر افسوس کہ پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی قائدین توقعات کے برعکس مدد تو درکنار وہ الفاظ استعمال کئے جنہیں میں یہاں دھرانا بھی نہیں چاہتا ہم سمجھتے تھے کہ ہمیں تمام جماعتوں سے امید تھی کہ وہ ہماری حمایت کریں گی تاہم جمعیت علمائے اسلام نے راجہ ظفر الحق کی حمایت کی ۔

(جاری ہے)

انہوںنے بعض قوتوں کی جانب سے حمایت کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں تو ایسی قوت نظر نہیں آئی شاید ہم پر بلا جواز تنقید کرنے والوں کو نظر آئی ہوگی نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو کو بتائیں کہ 2008ء کے انتخابات کا نیشنل پارٹی نے صوبے بھر میں بائیکاٹ کیا تھا ایسے میں جبکہ صوبائی اسمبلی میں ان کا ایک رکن بھی موجود نہیں تھا تو پھر وہ کیسے سینیٹر منتخب ہوئے آیا ہارس ٹریڈنگ کی یا پھر انتخابات کا بائیکاٹ ایک ڈھونگ تھا یہ تو وہی بتا سکتے ہیں بلوچستان کے عوام سے ہم اپیل کرتے ہیں کہ وہ بڑی بڑی باتیں کرنے والوں کی بجائے حقیقی نمائندوں کاانتخاب کریں تاکہ ان کے مسائل حل ہوسکیں ۔

ایک سوال پر انہوںنے کہا کہ ہم پر الزامات لگانے والے یہ واضح کریں کہ انہوںنے بلوچستان کیلئے کیا کیا ہم نے یہ کہا تھا کہ ہم اسمبلیاں نہیں تھوڑیں گے اور نہ ہی کسی جماعت میں شامل ہوں گے ہم اپنی باتوں پر قائم رہے ۔ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ اٹھارھویں ترمیم پر مکمل عملدرآمد کیاجائے تو ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں ہم نے اب بھی وفاق سے بہت سی چیزیں لینی ہیں وفاق سے کہتے ہیں کہ وہ دل بڑا کرکے تین سال سے التوا میں پڑے این ایف سی ایوارڈ پر عملدرآمد کرے جس سے بلوچستان کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔