ہماری خارجہ پالیسی کا محور دفاع کی بجائے اقتصادیات ہونا چاہئے، ماہرین

اقتصادی ترجیحات کے پیش نظرپاکستان اور چائنیز کے رحجانات واضح تبدیلی آئی ہے، پاکستان پیشہ وارانہ استعداد کار میں اضافہ کرے اور اقتصادی پالیسی کو تبدیل کرے، پاکستان بھارت اقتصادی تعاون غیر اہم ہو چکا ہے،سیمینار سے خطاب

پیر 2 اپریل 2018 23:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 اپریل2018ء) پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیراہتمام اقتصادی سیاست کے ذریعے خطے میں تبدیلی کے موضوع پر ہفتہ وار سیمینار سے عالمی بنک کے سابق مشیر اقتصادیات ہارون شریف، سینئیر تجزیہ کار زاہد حسین اور ایس ڈی پی آئی کے سر براہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اظہار خیال کیا ۔ سیمینار سے اظہار خیال کرتے ہوئے ہارون شریف نے کہا کہ دنیا بھر میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جو کہ گذشتہ 30برسوں میں خطے میں واضح دیکھی جا سکتی ہیں ۔

عا لمگیریت کے دور میں ممالک اپنے خطے میں رابطوں کا جائزہ لے رہے ہیں اور نئے رحجانات کو اہمیت دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے عالمی اداروں کی طرف سے پاکستان کو راہنمائی فراہم نہیں کی گئی کہ وہ اپنی درست سمت متعین کر سکتا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اقتصادی ترجیحات کے پیش نظرپاکستان اور چائنیز کے رحجانات واضح تبدیلی آئی ہے جو کہ بڑھ کر وسطی ایشیاء تک جا رہی ہے۔

اب پاکستان بھارت اقتصادی تعاون غیر اہم ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فقط تجارت سے اقتصادی ترقی ممکن نہیں ہے۔ جب تک اس میں سرمایہ کاری شامل نہ ہو اور دونوں عناصر مل کر پائیدار اقتصادی ترقی کا سبب بن سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو نفرت کا خاتمہ کر کے اقتصادی ترقی کے لئے پھر سے سوچنا چاہئے۔ ہارون شریف نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تین شعبہ جات میں اصلاحات ناگزیر ہیں ۔

پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ پیشہ وارانہ استعداد کار میں اضافہ کرے اور اقتصادی پالیسی کو تبدیل کرے۔ اقتصادی پالیسی کے ڈھانچے کو بہتر کر کے نجی شعبہ کو شامل کیا جائے۔ پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کے لئے سفارت کاری برائے اقتصادیات بہت اہم ہے۔ ہماری شرح نمو کی رفتار طویل عرصہ سے تبدیل نہ ہو سکی جب کہ ہماری آبادی میں بڑا حصہ نوجوان نسل کا ہے جو کہ ملک کا اصل سرمایہ ہے اس سرمایہ کا بہترین مصرف مہارت کی تشکیل سے ممکن ہے اس سے شرح نمو میں مثبت تبدیلی آسکے گی۔

ورلڈ بنک کے سابق مشیر کے زور دے کر کہا کہ تجارت کے انداز اور رحجانات کو سمجھنے کے لئے علم کا تبادلہ انتہائی ضروری ہے جو کہ یونیورسٹیز اور تھنک ٹینکس کو مربوط کرنے سے ممکن ہے۔ اس سے ہی ان کی صلاحیتوں میں نکھار آ سکتا ہے۔ جس کے لئے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) بہتر خدمات سر انجام دے سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہ اکہ پاکستان میںاس نمونے کی افسر شاہی کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ دل جمعی سے کام کرنے والے اہلکاروں کی ضرورت ہے اس سے پاکستان کا اقتصادی نقشہ بہتر حالت میں آ سکتا ہے۔

نیشنل سیکورٹی کو اعلیٰ بصارت سے انسانی اور انفرادی تحفظ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ سیمینار سے اظہار خیال کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے سر براہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا پاکستان چائنہ راہداری منصوبہ میں بے پناہ فوائد نہیں ہیں بلکہ بے پناہ فوائد عوام کو معیشت کو ہوں گے۔ اس سے نئے رابطے استوار کرکے نئے اقتصادی اتحاد قائم ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ اس پر سنجیدگی سے غور خوض کر کے اپنے انتخابی منشور کا اہم جزوبنائیں ۔ اقتصادی تحفظ آج کی اہم ضرورت ہے۔ سینئیر تجزیہ کار زاہد حسین کے سیمنار سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے رحجانات میں تبدیلی عالمی تغیرات کا حصہ ہے۔ جو کہ نو آبادیاتی عمل اور اس کے جزیات ہیں ۔

پوری دنیا میں ہونے والے اس عمل میں روس کا کردار کلیدی ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان جغرافیائی اعتبار سے ایسے اہم مقام پر جوکہ توانائی اور تجارت کے لئے بہترین راہداری ہے ۔مگر بد قسمتی سے ہماری توجہ اس پر نہیں ہے۔ پاک چائنہ راہداری پر چائنیز کا ذہن بالکل واضح ہے جبکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ گیم چینجر ہو سکتاہے۔ اگر ہم اس کے مقاصد سے مکمل بہرآور ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی دفاع کے گرد گومتی ہے جبکہ اب یہ تبدیلی جو کہ انسانی اور معاشی رحجان اختیار کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا اقتصادی تحفظ اور استحکام کے لئے ملک کا سیاسی طور پر مستحکم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ پانامہ کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کے اثرات نے اقتصادی عمل کو شدید متاثر کیا ہے۔ ملک کو بہتری کی طرف لے جانے کے لئے انتخابی عمل ناگزیر ہو چکا ہے۔ پنجاب سیاسی اکھاڑہ بنا نظر آرہا ہے۔ انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں کوئی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کرتی نظر نہیں آتی۔ آخر میں دونوں ماہریں نے شرکا ء کے سوالوں کے جواب دیئے۔

متعلقہ عنوان :